نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

پاکستان کی سیاسی کشیدگی اور اس کا حل

پاکستان کو کئی دہائیوں سے سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ ملک بے شمار اتار چڑھاؤ سے گزرا ہے، لیکن سیاسی مسائل کا کبھی نہ ختم ہونے والا چکر لگتا ہے۔ پاکستان میں موجودہ سیاسی مسئلہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان لڑائی ہے۔ پاکستان میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ہے، جس کی قیادت وزیر اعظم عمران خان کر رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) شامل ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں معیشت، خارجہ پالیسی اور COVID-19 وبائی امراض سے نمٹنے سمیت متعدد محاذوں پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جو اہم مسائل پیدا ہوئے ہیں ان میں سے ایک 2018 کے عام انتخابات میں دھاندلی کا مسئلہ ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور تحریک انصاف کو غیر منصفانہ طریقے سے اقتدار میں لایا گیا۔ اپوزیشن نے ملک میں دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے جسے حکومت نے مسترد کر دیا ہے۔ ایک اور مسئلہ جو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشمکش کا باعث بنا ہے وہ اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاری ہے۔ حکومت نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری سمیت کئی اپوزیشن رہنماؤں کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ اپوزیشن نے الزام لگایا ہے کہ یہ گرفتاریاں سیاسی طور پر ہیں اور ان کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے۔ حکومت کے معیشت کو سنبھالنے کے طریقہ کار کو اپوزیشن کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ملک کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے، مہنگائی اور بے روزگاری ہر وقت بلند ترین سطح پر ہے۔ اپوزیشن نے حکومت پر معیشت کو سنبھالنے میں بدانتظامی اور نااہلی کا الزام لگایا ہے۔ حکومت کی خارجہ پالیسی بھی تنقید کی زد میں ہے، خاص طور پر بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات۔ حزب اختلاف نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ بھارت کے حوالے سے بہت نرم رویہ اختیار کر رہی ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہی۔ حزب اختلاف نے افغان مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے حکومتی اقدامات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ COVID-19 وبائی مرض نے پاکستان کی سیاسی صورتحال کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔ اپوزیشن نے الزام لگایا ہے کہ حکومت وائرس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہی اور ویکسینیشن مہم کو غلط طریقے سے سنبھال رہی ہے۔ حکومت کو وبائی امراض سے متاثرہ لوگوں کو خاطر خواہ ریلیف فراہم نہ کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ آخر میں، پاکستان کو متعدد مسائل کے ساتھ ایک پیچیدہ سیاسی صورتحال کا سامنا ہے جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو مل کر ان مسائل کے حل اور ملک میں استحکام لانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اپوزیشن کے خدشات دور کرنے اور معیشت کی بہتری اور وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن کو ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے لچک دکھانے اور حکومت کے ساتھ تعمیری بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ مل کر کام کرنے سے ہی پاکستان اپنے موجودہ سیاسی بحران پر قابو پا کر روشن مستقبل کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

انجیر کی کاشت

🥝🥝.. #انجیر .(Anjeer).🥝🥝 #پاکستان کی سر زمین پر تقریبا 18 ہزار من سالانہ انجیر پیدا ہوتا ہے, جبکہ یہاں سالانہ تقریباً 28 ہزار من انجیر کی مانگ ہوتی ہے.اسی لیے ہمیں اس مانگ کو پورا کرنے کے لئے ترکی، ایران اور افغانستان سے سالانہ تقریباً 10 ہزار من خشک انجیر خرید کر پاکستان لانا پڑتا ہے. یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں انجیر اس قدر مہنگا ہے کہ عام آدمی اسے کھانے کے بارے سوچ ہی نہیں سکتا. انجیر کی فصل لگانے کے لئے دس/10 فٹ کے فاصلے پر قطاریں بنا کر اور ان قطاروں میں دس/10 فٹ کے فاصلے پر ہی پودے لگائے جاتے ہیں. اس طرح ایک ایکڑ میں تقریباََ 435 پودے لگائے جاسکتے ہیں. یاد رہے کہ ایک دفعہ لگایا ہوا انجیر کا پودا 15 سے 20 سال تک بھر پور پیداوار دیتا ہے. نرسری میں انجیر کا ایک پودا تقریباََ 50 روپے میں مل جاتا ہے. اس طرح پودے لگانے کا فی ایکڑ خرچ تقریباََ 22 ہزار روپے ہو سکتا ہے. ایک پودا کم از کم 6 کلوگرام پیداوار دیتا ہے. اس طرح سے ایک ایکڑ سے تقریبا 2600 کلو یا 65 من تازہ انجیر حاصل کیا جا سکتا ہے.اگر انجیر کو خشک کر لیا جائے تو تقریباََ 1430 کلو صافی خشک انجیر حاصل کیا جا سکتا ہے.اب اگر انجیر...

... غذا اور علاج

اسلام وعلیکم اچھی خوراک ھماری اچھی صحت کی ضمانت ھے. اس موضوع پر میں نے ایک چھوٹی سی کاوش کی ھے امید ہے آپ کو پسند آئے گی. مزید معلوماتی تحریر کے لئے میرے بلاگ پر آییں شکریہ Mian Zahir hafeez zahirch.blogspot.com

محمد بن سلمان... اقتدار کے لیے گھناؤنی سازشیں کرنے والا حکمران

،تصویر کا ذریعہ REUTERS رواں ہفتے امریکہ کی نئی انتظامیہ نے ایک مرتبہ پھر واضح انداز میں اشارے دیے ہیں کہ وہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے کیسے اپنے آپ کو دور رکھے گی۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جن پاسکی نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے کلیدی اتحادی، سعودی عرب، سے امریکہ کے تعلقات کا از سر نو جائزہ لیں گے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے داماد جیرڈ کشنر کی وساطت سے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے قریبی تعلقات استور کر لے تھے اور اُن کو امریکہ کی طرف سے فروخت کیے گئے ہتھیاروں کو یمن کی جنگ میں بے دریغ استعمال کی کھلی چھٹی دے دی تھی۔ بظاہر اب ایسا نظر آ رہا ہے کہ صدر جو بائیڈن ولی عہد محمد بن سلمان کی بجائے سعودی عرب کے ساتھ اپنے معاملات براہ راست شاہ سلمان سے بات چیت کے ذریعے نمٹائیں گے۔ شاہ سلمان ولی عہد محمد بن سلمان کے والد ہیں، اُن کی عمر لگ بھگ 80 برس ہے اور ان کی صحت بھی بہت اچھی نہی امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آئندہ سے امریکی پالیسی قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق کی پاسداری کو ترجیج دینے ...