ھر دور میں سو الزام لگے
ہر دور میں سر قربان کۓ
جس حال میں جینا مشکل ہو
اس حال میں جینا لازم ہے"۔
ظلم جب حدیں پار کردے تو اس کے سامنے سر اٹہانا وقت کی تقاضا اور زندگی کی بقا کے لئے لازم و ملزوم ہو جاتا ہے، اسے لئے میں آج سرداری نظام کے خاتمے اور مزید انسانی جانیں ضایع ہونے سے بچانے کی تگ و دو میں کوشاں رہتی ہوں۔ بس آپ تمام بہائیوں کو سپورٹ جاری رکہنے کی درخواست ہے،
انسان خور سرداری نظام نامنظور
آپ کی بہن
ام رباب
صوبہ سندھ کے ضلع دادو کی ایک تحصیل میہڑ سے تعلق رکھنے والی اکيس سالہ ام رباب چانڈیو نے والد چچا اور دادا کو کھونے کے بعد اپنے علاقے کے ديگر افراد کو حقوق اور انصاف دلانے کی ٹھان لی ہے۔ اپنی جان کو لاحق خطرے کے باوجود ام رباب کا کہنا ہے کہ وہ جاگيرداری نظام کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھیں گی
سندھ کے وڈیرے اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں اور عام لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنا ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا عدل وانصاف کا عالم یہ ہے کہ ایک پڑھی لکھی لڑکیی تمام تر وسائل بروئے کار لانے کے باوجودانصاف کے لیے دربدر دھکے کھا رھی ھے تو غریب اور متوسط طبقے کے لئے انصاف کھاں ھو گا
ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اےآئی جی) پولیس سکھر نے ام رباب چانڈیو کے والد سمیت خاندان کے 3 افراد کے قتل کے کیس کی سربراہی کرنے سے معذرت کرلی۔
ایڈیشنل آئی جی سکھر نے آئی جی سندھ مشتاق مہر کو خط لکھ کر آگاہ کردیا ہے۔
خط کے متن کے مطابق ایڈیشنل آئی جی نے مؤقف اختیارکیاکہ میہڑ دادو کا علاقہ ہے اور یہ حیدرآباد ریجن میں ہے اور وہ خود اس وقت ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں اس لیے ایڈیشنل آئی جی حیدرآباد ریجن کی سربراہی میں ٹیم قائم کی جائے۔
تہرے قتل کا کیس: ملزمان کی عدم گرفتاری پر ڈی آئی جی کو فارغ کرنے کا عندیہ
آئی جی سندھ نے قتل کیس میں مفرور دو ملزمان مرتضی چانڈیو اور ذوالفقار چانڈیو کی گرفتاری کے لیے اے آئی جی سکھر کی سربراہی میں ٹیم بنائی تھی۔
خیال رہے کہ دادو کی تحصیل میہڑ میں مبینہ طور پر17جنوری 2018 کو چانڈیو برادری کے افراد نے فائرنگ کرکے ام رباب کے والد، دادا اور چچا کو قتل کردیا تھا۔
سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار ایک صبح جب سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مقدمات کی سماعت کے لیے پہنچے تھے تو ام رباب نے ان کی گاڑی کا راستہ روکنے کی کوشش کی تھی جب کہ اس کے بعد ان کی سندھ ہائی کورٹ کے باہر ننگے پیر سماعت پر آنے کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ام رباب کی فریاد پر 2 بار از خود نوٹس لیا تھا۔
پولیس کے بڑے بڑے افسر ملزمان کے سامنے بے بس ہیں: چیف جسٹس
رواں ماہ کو سپریم کورٹ اسلام آباد میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے تھےکہ پولیس کے بڑے بڑے افسر ملزمان کے سامنے بے بس ہیں۔
چیف جسٹس نے مفرور ملزمان کی عدم گرفتاری پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھےکہ کیا ملزمان پولیس اور ریاست سے زیادہ طاقتور ہیں؟ کیا حیدرآباد پولیس کی ساری نفری بیکار ہے؟
جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھاکہ پولیس افسران دفاتر سے باہر ہی نہیں نکلتے اور پولیس کے بڑے بڑے افسر ملزمان کے سامنے بے بس ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں